حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔
’’اے دانشمند و !تم اس سے تعجب مت کرو کہ خدا تعالیٰ نے اس ضرورت کے وقت میں اور اس گہری تاریکی کے دنوں میں ایک آسمانی روشنی نازل کی اور ایک بندہ کو مصلحت عام کے لئے خاص کر کے بغرض اعلائے کلمہ اسلام واشاعت نور حضرت خیر الا نام اور تائید مسلمانوں کے لئے اور نیز اُن کی اندرونی حالت کے صاف کرنے کے ارادہ سے دنیا میں بھیجا۔ تعجب تو اس بات میں ہوتا کہ وہ خدا جو حامی دین اسلام ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ میں ہمیشہ تعلیم قرآنی کا نگہبان رہوں گا اور اسے سرد اور بے رونق اور بے نو رنہیں ہونے دوں گا ۔ وہ اس تاریکی کو دیکھ کر اور اِن اندرونی اور بیرونی فسادوں پر نظر ڈال کر چپ رہتا اور اپنے اُس وعدہ کو یاد نہ کرتا جس کو اپنے پاک کلام میں مؤکد طور پر بیان کر چکا تھا۔ پھر میں کہتا ہوں کہ اگر تعجب کی جگہ تھی تو یہ تھی کہ اس پاک رسول کی یہ صاف اور کھلی کھلی پیشگوئی خطا جاتی جس میں فرمایا گیا تھا کہ ہر ایک صدی کے سر پر خدا تعالیٰ ایک ایسے بندہ کو پیدا کرتا رہے گا کہ جو اسکے دین کی تجدید کریگا۔
(روحانی خزائن جلد3صفحہ 6)